Friday, August 13, 2010

ڈرون حملے تین گنا زیادہ

Fav Tag:

پچھلے اٹھارہ ماہ میں شدت پسندوں نے داراحکومت اسلام آباد سمیت تیس شہروں کو نشانہ بنایا ہے
باراک اوباما کے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی تعداد تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔
بی بی سی اردو سروس کی ایک تحقیق کے مطابق جنوری دو ہزار نو سے اس سال جون تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ستاسی ڈرون حملے ہوئے۔ اس سے پہلے اٹھارہ ماہ میں محض پچیس ڈرون حملے ہوئے تھے۔
اوباما انتظامیہ کے تحت ہونے والے ان حملوں میں سات سو سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں جن کے بارے میں حتمی طور پر یہ کہنا ناممکن ہے کہ ان میں شدت پسند یا جنگجو کتنے تھے اور عام شہری کتنے۔ اوباما انتظامیہ سے پہلے ہونے والے حملوں میں دو سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
زیادہ تر حملوں کا مرکز شمالی وزیرستان رہا اور ستاسی میں سے چھپن حملے شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں کیے گئے۔ اس کے بعد ڈرونز کا بڑا ہدف جنوبی وزیرستان تھا جہاں اس دوران چھبیس حملے ہوئے۔
مستقبل قریب میں ان حملوں کے رکنے کا امکان بہت کم ہے۔ طالبان کی سیاست کا بڑا محور افغانستان ہے اور جبتک وہاں مفاہمت اور امن کی جانب کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوتی، ان حملوں کا رکنا مشکل نظر آتا ہے
پاکستانی ماہرین
ایک سینیئر امریکی اہلکار کے مطابق ڈرون حملوں میں اب تک چھ سو پچاس شدت پسند اور بیس عام شہری ہلاک ہوئے ہیں تاہم پاکستانی ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس امریکی اہلکار کے مطابق یہ محض ایک مفروضہ ہے۔ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ ڈرونز جنگوں کی تاریخ میں ہدف کو عین نشانہ بنانے والے ہتھیاروں میں سب سے زیادہ مؤثر ہتھیار ہیں۔
بغیر پائلٹ کے یہ جہاز یا ڈرون امریکی انٹیلیجنس ادارہ سی آئی اے کنٹرول کرتا ہے اور حملوں کی ضرورت، وقت اور جگہ کا تعین بھی سی آئی اے کی ہی ذمہ داری ہے۔ تاہم بی بی سی کی کوشش کے باوجود بھی سی آئی اے نے ڈرونز کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
امریکی اہلکار اکثر یہ اشارہ دے چکے ہیں قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے پاکستان کے ساتھ ایک خاموش معاہدے کے نتیجے میں ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کے مطابق امریکہ اور پاکستان میں اس معاملے میں واضح اختلاف ہے۔
عبدالباسط کے مطابق ڈرون حملے نہ صرف پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں بلکہ یہ قبائلی علاقوں میں دل و دماغ کی جنگ جیتنے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کا حل ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم سے چاہتے ہیں کیونکہ اس جنگ میں پاکستان اور امریکہ کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے دہشتگردی کا خاتمہ۔ انہوں نے کہا کہ باوجود اس کے کہ ان حملوں سے پاکستان میں بے چینی پھیل رہی ہے وہ انہیں اپنے قریبی حلیف اور دوست ملک امریکہ کے ساتھ کسی جھگڑے کی بنیاد نہیں بنانا چاہتے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں اور اس وجہ سے جائز نہیں ہیں، لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بارے میں تمام پالیسی فیصلے کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
پ اکستان میں جس بڑھتی ہوئی بے چینی کا ذکر عبدالباسط کر رہے ہیں اس کا ایک پیمانہ ملک بھر میں خودکش اور بم حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ اردو سروس کی تحقیق کے مطابق شدت پسندوں نے پچھلے اٹھارہ ماہ میں پاکستان کے مختلف شہروں میں ایک سو چالیس سے زیادہ حملے کیے ہیں جن میں سترہ سو سے زائد شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔
اس دوران پشاور شدت پسندوں کا بڑا ہدف رہا ہے جہاں چھتیس حملوں میں ساڑھے تین سو سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔ شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں دوسرا بڑا شہر لاہور ہے جہاں بارہ حملوں میں اڑھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
پچھلے اٹھارہ ماہ میں شدت پسندوں نے داراحکومت اسلام آباد سمیت تیس شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔
انتہا پسندوں کی جانب سے حملوں کی تعداد اور شدت میں پچھلے نو ماہ میں خاص طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان میں سے کئی حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔
طالبان کے ترجمان محمد عمر نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ گو انہیں ان ڈرون حملوں سے کچھ وقتی نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن بطور ایک تحریک کے وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔ محمد عمر کے مطابق ڈرون حملوں سے متنفر قبائلی بڑی تعداد میں ان کی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔
لیکن ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق اگر محمد عمر کی بات مان بھی لی جائے تو بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ قبائلی علاقوں میں ان حملوں کے خلاف صرف نفرت ہی پائی جاتی ہے۔
جنوبی اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے متعدد قبائلیوں نے ہمارے نامہ نگاروں سے کہا کہ گو وہ ڈرون حملوں کے خلاف ہیں لیکن یہ پاکستانی فوج کی جانب سے کیے گئے فوجی آپریشنز سے بہرحال بہتر ہوتے ہیں کیونکہ یہ صرف طے شدہ ہدف ہی تباہ کرتے ہیں جبکہ عام آبادی ان سے محفوظ رہتی ہے۔
غیر پائلٹ کے یہ جہاز یا ڈرون امریکی انٹیلیجنس ادارہ سی آئی اے کنٹرول کرتا ہے اور حملوں کی ضرورت، وقت اور جگہ کا تعین بھی سی آئی اے کی ہی ذمہ داری ہے۔ تاہم بی بی سی کی کوشش کے باوجود بھی سی آئی اے نے ڈرونز کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
دلیل میں وہ محسود علاقے کے شہر جنڈولہ کے بازار کی مثال دیتے ہیں جہاں ان کے مطابق محسود قبائل کے خلاف کیے جانے والے فوجی آپریشن میں چار سے پانچ سو دکانوں پر مشتمل جنڈولہ بازار مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔
اسلام آباد میں آریانہ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ خادم حسین کی تحقیق بھی اس نقطہء نظر کی حمایت کرتی ہے۔ خادم حسین کے مطابق پچہتر فیصد قبائلی ڈرون حملوں کے حق میں ہیں۔
گو کہ ڈرونز کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ کے انجام کا اندازہ لگانا فی الحال ناممکن ہے لیکن دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اس نوعیت کی جنگ کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ ان اداروں کے مطابق ڈرون حملے دنیا بھر میں مانے جانے والے جنگی قوانین تباہ کر رہے ہیں اور اگر یہ جاری رہے تو عالمی امن کو انتشار کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔
تاہم پاکستانی مبصرین کے مطابق مستقبل قریب میں ان حملوں کے رکنے کا امکان بہت کم ہے۔ طالبان کی سیاست کا بڑا محور افغانستان ہے اور جبتک وہاں مفاہمت اور امن کی جانب کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوتی، ان حملوں کا رکنا مشکل نظر آتا ہے۔
پاکستان کے لیے اس جنگ میں سب سے بڑا خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر انتہا پسندی کی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو وقت گزرنے کے ساتھ یہ حملے قبائلی علاقوں سے باہر بھی پھیل سکتے ہیں

0 comments :

Popular Posts