پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت کو کراچی میں ایک مرتبہ پھر امن کی بحالی کے مسئلے کا سامنا ہے جہاں گزشتہ پندرہ روز میں دس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں سے آٹھ جعفریہ الائنس اور کالعدم سپاہ صحابہ اور سنی تحریک کے دو دو کارکن یا ہمدرد تھے۔ یہ تمام جماعتیں مسلک کی بنیاد پر سیاست کرتی ہیں۔
پاکستان میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کا سلسلہ گزشتہ چار دہائیوں سے جاری ہے۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انقلاب ایران سے قبل اس قدر کشیدگی نہیں تھی، ایران نے یہاں ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کام کیا جس کے جواب میں سعودی عرب بھی میدان میں آیا یوں دونوں ملکوں کی سرد جنگ نے پاکستان میں جڑیں پکڑیں۔
فرقہ وارانہ تعصب اور ہلاکتوں کے حوالے سے کچھ تنظیموں کے زیر الزام آنے کے باوجود کبھی ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی مگر ’نائن الیون‘ کے بعد دو ہزار دو میں دیگر جہادی جماعتوں کے ساتھ ان جماعتوں کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا جو فرقے یا مسلک کی بنیاد پر سیاست کرتیں رہیں تھیں۔حالانکہ یہ دونوں جماعتیں پارلیمنٹ تک منتخب ہو کر پہنچی تھیں۔
کراچی میں گزشتہ سال دس محرم کے ماتمی جلوس اور چہلم کے موقعے پر دھماکے، اس کے بعد اہلسنت و جماعت ( کالعدم سپاہ صحابہ) کے مرکزی رہنما مولانا عبدالغفور ندیم کے قتل کے بعد ایک مرتبہ پھر فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
اس سے قبل کچھ ایسی ہی صورتحال دو ہزار چار میں بھی پیدا ہوئی، جب مسجد حیدری میں بم دھماکے اور اس کے بعد دیوبند مسلک کے رہنما اور جامعہ بنوریہ کے ناظم اعلیٰ مفتی نظام الدین شامزئی کے قتل اور دوسرے روز امام بارگاہ علی رضا میں دھماکے نے شہر کو فرقہ وارانہ کشیدگی کی طرف دھکیل دیا تھا۔
کراچی میں پولیس ریکارڈ کے مطابق شہر میں اب تک جتنے بھی خودکش بم حملے ہوئے ان میں اکثر ٹارگٹ شیعہ کمیونٹی ہی رہی ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئیں تنظیمیں پنجاب اور خاص طور پر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہیں، مگر کیا یہ بھی محض اتفاق ہے یا صوبائی حکومت کی حکمت عملی کہ وہاں یہ واقعات پیش نہیں آ رہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ اور موجودہ اہلسنت و الجماعت کے سیکریٹری اطلاعات احسان اللہ فاروقی کا کہنا ہے کہ ’وہ صحابہ کرام کی عزت اور عظمت اور دلائل کی بات کرتے ہیں مخالفین کے پاس دلائل نہیں اس لیے وہ گولی کی بات کرتے ہیں، جس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا اس میں دونوں طرف کے لوگ جاں بحق ہوئے۔‘
0 comments :
Post a Comment